انتخابات کے بعد!اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہوشیار باش ✍️: عارف بلتستانیبقا اور ارتقا کےلئے مزاحمت ضروری ہے۔ مزاحمت کیلئے امتحان، دشمن اور مشکلات چاہیے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ دشمن ، امتحانات اور مشکلات سے برسر پیکار رہے۔ کسی بھی صورت میں مزاحمت سے ہاتھ نہ اٹھائے۔ مزاحمت سے ہاتھ اٹھانا یعنی زوال اور شکست کے لئے راضی ہونا۔ وہ دشمن چاہے داخلی ہو یا خارجی، دشمن، دشمن ہی ہوتا ہے۔دشمن کو کبھی اپنا ولی، حاکم اور آقا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ عقل انسانی کے منافی ہے۔ پاکستانی جب مسلمان ہیں اور ایک قوم ہیں تو پھر وہ کیسے اپنے دشمنوں کو اپنا آقا مان سکتے ہیں؟۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے دشمن مسلمان فرقے نہیں بلکہ یہود و نصاری اور ہنود نیز انکے چیلے ہیں جو آج بھی وطن عزیز میں مسلکی اور مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ہمارے دشمن اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، جب تک ہم انہی میں سے ایک نہ ہو جائیں یا ان کے نقشِ قدم پر نہ چل پڑیں۔ مسلمانوں نے آخری چند صدیوں میں جہاد و مزاحمت سے ہاتھ اٹھایا ہے تو تمدن اسلامی پر تمدن اٹلانٹک (غرب) نے غلبہ حاصل کر لیا ۔ اس موضوع پر "مقاومت اور مقاومتی بلاک" نامی کالم میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے۔اس کالم میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ امریکہ رو بہ زوال ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ وہ اب منطقے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے رجیم چینج کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسی صورت حال میں پالیسی ساز شخصیات، ادارے اور عوام کو چاہیئے کہ اسی کا ساتھ دیں، جو امریکہ مخالف پالیسی رکھتا ہو اور سوچنا بھی چاہیئے کہ تمدن اسلامی کے بجائے تمدن غرب کی بقا کے لئے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں۔؟ لیکن یہ یاد رکھئے کہ جس نے بھی امریکہ کی خ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید
برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 29 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30